آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا

قمر جلالوی


توبہ کیجیے اب فریبِ دوستی کھائیں گے کیا
آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا
خود سمجھے ذبح ہونے والے سمجھائیں گے کیا
بات پہنچے کی کہاں تک آپ کہلائیں گے کیا
بزمِ کثرت میں یہ کیوں ہوتا ہے ان کا انتظار
پردۂ وحدت سے باہر ہم نکل آئیں گے کیا
کل بہار آئے گی یہ سن کر قفس بدلو نہ تم
رات بھر میں قیدیوں کے پر نکل آئیں گے کیا
اے دلِ مضطر انہیں باتوں سے چھوٹا تھا چمن
اب ترے نالے قفس سے بھی نکلوائیں گے کیا
اے قفس والو رہائی کی تمنا ہے فضول
فصلِ گل آنے سے پہلے پر نہ کٹ جائیں گے کیا
شامِ غم جل جل کے مثلِ شمع ہو جاؤں گا ختم
صبح کو احباب آئیں گے تو تو دفنائیں گے کیا
جانتا ہوں پھونک دے گا تیرے گھر کو باغباں
آشیاں کے پاس والے پھول رہ جائیں گے کیا
ان کی محفل میں چلا آیا ہے دشمن خیر ہو
مثلِ آدم ہم بھی جنت سے نکل جائیں گے کیا
ناخدا موجوں میں کشتی ہے تو ہم کو نہ دیکھ
جن کو طوفانوں نے پالا ہے وہ گھبرائیں گے کیا
تو نے طوفاں دیکھتے ہی کیوں نگاہیں پھیر لیں
ناخدا یہ اہل کشتی ڈوب ہی جائیں گے کیا
کیوں یہ بیرونِ چمن جلتے ہوئے تنکے گئے
میرے گھر کی دنیا بھر میں پھیلائیں گے کیا
کوئی تو مونوس رہے گا اے قمر شامِ فراق
شمع گل ہو گی تو یہ تارے بھی چھپ جائیں گے کیا
فہرست