لو، ایک نیا سنگِ گراں راہ میں آیا

عرفان صدیقی


پھر وہم دلِ یار کم آگاہ میں آیا
لو، ایک نیا سنگِ گراں راہ میں آیا
دنیا نے تو آغوشِ ہوس کی تھی کشادہ
کچھ میں ہی نہ اس حلقۂ کوتاہ میں آیا
دل سکۂ زر تھا کہیں مقتل میں ہوا گم
اک کاسۂ سر نذرِ شہنشاہ میں آیا
اک درد نیا سینۂ پرشور میں جاگا
ایک اور رجز خواں صفِ جنگاہ میں آیا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست