چراغوں کے بدن کو پارہ پارہ دیکھتا ہوں میں

عرفان صدیقی


زوالِ شامِ ہجراں کا اشارہ دیکھتا ہوں میں
چراغوں کے بدن کو پارہ پارہ دیکھتا ہوں میں
متاعِ جاں لٹا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا
تو کیوں سود و زیاں کا گوشوارہ دیکھتا ہوں میں
تمنا کا نتیجہ اپنے سر لینا نہیں اچھا
ذرا ٹھہرو عزیزو‘ استخارہ دیکھتا ہوں میں
مری خاکِ بدن آخر اسی مٹی کا حصہ ہے
سو کشتی کھولتا ہوں اور کنارہ دیکھتا ہوں میں
غبارِ شب کے پیچھے روشنی ہے لوگ کہتے ہیں
اگر یوں ہے تو یہ منظر دو بارہ دیکھتاہوں میں
اندھیروں میں کچھ ایسے خواب بھی دکھلائی دیتے ہیں
کہ جیسے آسماں پر اک ستارہ دیکھتا ہوں میں
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست