کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں عرفان صدیقی بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں تجھی پہ ختم ہے جاناں مرے زوال کی رات تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں غبارِ راہ گزر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ ہوائے تازہ ترے ساتھ چل رہا ہوں میں میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکارتا ہے اور اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں میں مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن