کبھی مرہم کبھی تلوار بنا دے مجھ کو

عرفان صدیقی


حرف ہوں، اور پر اسرار بنا دے مجھ کو
کبھی مرہم کبھی تلوار بنا دے مجھ کو
تو نے صحرا میں اگایا ہے تو کچھ کام بھی لے
میں تنک سایہ ہوں‘ چھتنار بنادے مجھ کو
بارشِ سنگ ہی جب میرا مقدر ہے ، تو پھر
اے خدا، شاخِ ثمردار بنا دے مجھ کو
کوئی سچ میرے سلگتے ہوئے سینے میں بھی ڈال
آگ ہی آگ ہوں‘ گلزار بنادے مجھ کو
میں کہاں تک دلِ سادہ کو بھٹکنے سے بچاؤں
آنکھ جب اٹھے گنہگار بنادے مجھ کو
باڑھ میں بہتی ہوئی شاخ کا مصرف کیا ہے
ڈوبتے ہاتھ کی پتوار بنادے مجھ کو
جیسے کاغذ پہ کوئی اسم مرادوں والا
میں بگڑ جاؤں وہ ہر بار بنادے مجھ کو
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست