دار پر جاؤ مگر اوروں کی دعوت پہ نہ جاؤ

عرفان صدیقی


اپنی وحشت کی سنو اذن و اجازت پہ نہ جاؤ
دار پر جاؤ مگر اوروں کی دعوت پہ نہ جاؤ
کتنے ہی دشت و دمن مجھ میں پڑے پھرتے ہیں
صاحبو‘ کوہکن و قیس کی شہرت پہ نہ جاؤ
لاکھ راس آئے مگر کام ہے نادانی کا
تم مرے ماحصل کارِ محبت پہ نہ جاؤ
ظرفِ منعم سے بڑا ہے مرا دامانِ طلب
اپنی زر مہریں گنو میری ضرورت پہ نہ جاؤ
اور اک جست میں دیوار سے ٹکرائے گا سر
قید پھر قید ہے زنجیر کی وسعت پہ نہ جاؤ
ہو کے صحراؤں میں ان لوگوں کی یاد آتی ہے
ہم سے گھر میں بھی جو کہتے تھے کھلی چھت پہ نہ جاؤ
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست