یہ قصہ حاصلِ جاں ہے

مجید امجد


یہ قصہ حاصلِ جاں ہے ، اسی میں رنگ بھریں
لہو کی لہر کے لہجے میں اپنی بات کہیں
دھوئیں میں آگ کے تیشے ہیں، زخم ہیں، اب ہم
انھی کڑکتے دھماکوں سے اپنے گیت چنیں
ہمارے جیتے گھروندے ، ہمارے جلتے جتن
یہ مورچے ، یہ جیالے سپاہیوں کی صفیں
جلی زمین، سیہ دھول، صدقِ خوں کی مہک
قدم قدم پہ یہاں مہر و مہ کی سجدہ گہیں
یہ دن بھی کتنے مقدس ہیں، بے بہا ہیں کہ آج
ہمارا حصہ بھی ہے طالعِ شہیداں میں
اسی تڑختی ہوئی باڑھ میں ہمیں کو ملیں
سنورتی، سجتی، نکھرتی دلوں کی اقلیمیں
یہ جینے والوں نے دیکھا کہ اس گروہ میں تھے
وہ جان ہار کہ جو موت کو بھی فتح کریں
میں ان کو طاقِ ابد سے اتار لایا ہوں
یہ شمعیں جن کی لویں میرے آنسوؤں میں جلیں
 
فہرست