چہرۂ ِ مسعود
مالک، تیری اس دنیا میں، آج ہماری زندگیوں کو کیسے کیسے دکھوں کا مان ملا ہے !
ایسے دکھ جو ٹیس بھی ہیں اور دھیر بھی ہیں اور ڈھارس بھی ہیں!
مالک، آج اس دیس میں، اس بستی میں، کوئی اگر دیکھے تو ۔۔۔ ہر سو
بھری بہاروں، فصلوں، کھلیانوں پر پھیلی دھوپ کی تہہ کے تلے
اک خون کے چھینٹوں والی چھینٹ کی میلی اور مٹیالی چادر بچھی ہوئی ہے
موت کی میلی اور مٹیالی موج میں رنگ لہو کے ، نقش لہو کے
ایک ایک چمکتی سطح کے نیچے ، راکھ لہو کی، ساکھ لہو کی
کوئی اگر دیکھے تو آج اس دیس میں، بانس کی باڑی میں، دھان کے کھیت میں ٹھنڈی ریت میں
جگہ جگہ پر ۔۔۔ بکھری ہوئی نورانی قبریں، آنگن آنگن روشن قدریں
مائیں، جن کے لال مقدس مٹی
بہنیں، جن کے ویر منور یادیں
بالک، جن کی مایا بے سدھ آنسو
مرنے والے کیسے لوگ تھے ، ان کا سنجوگ بھی اک سنجوگ ہے ، ان کا دکھ بھی ایک عبادت
کیسے لوگ تھے ، موت کی لہر پہ آگ کی پینگ میں جھولے ، تجھ کو نہ بھولے ، ہم کو نہ بھولے !
مالک، ان کے صدہا چہرے اک چہرہ ہیں — پکی اینٹ کی رنگت والا چہرہ
روحوں کی دیوار میں ایک ہی چہرہ، قبروں کی الواح میں ایک ہی چہرہ
مالک، ہمیں بھی اس چہرے کی ساری خوشیاں، سارے کرب عطا کر
مالک، اس چہرے کا سجرا سورج ہماری زندگیوں میں ڈوب کر ابھرے !