ہوس

مجید امجد


کبھی تو وہ دن بھی تھے ۔۔۔ مگر ۔۔۔ اب
نہ جانے کیوں دل سیاہ لہروں میں بہہ گیا ہے
کبھی تو وہ دن بھی تھے ۔۔۔ مگر ۔۔۔ اب
زمین محورمیں، آسماں چوکھٹے میں، ہر چیز اپنی اپنی حدوں میں محدود، اپنی اپنی بقا میں باقی
شعاعوں میں کروٹیں وہی تابشِ گہر کی
ہواؤں میں دھاریاں وہی موجِ رنگ زر کی!
کہاں سے ڈھونڈوں وہ دن ۔۔۔ وہ دن جب
بدن پہ بے رنگ چیتھڑے تھے
جہت جہت میں الجھ گئی تھی
زمین اک بے وجود نقطہ
جہان اک رائیگاں صداقت
حیات اک بے وفا حقیقت
عجیب دن تھے ، ہر ایک ذرے کے دل میں داغِ فنا کا سورج ابھر رہا تھا
وہ دن، وہ احساس بے ثباتی
وہ دولت بے زری، وہ اپنی نمود بے سود میں غمِ لازوال کو ڈھونڈنے کی خوشیاں
کہاں سے ڈھونڈوں وہ دن، کہ اب تو
ہوا کے ٹھنڈے غرور میں ہیں ہوس کے تیشے
ہوس کے تیشے ، جو طنز ہیں میری خودفراموشیوں، مری بے لباسیوں پر
مرے بدن کو بھی اب تو درکار ہیں وہ ساماں
جو رزقِ سم ہیں، جو مرگِ دل ہیں
 
فہرست