روح میں ابھرے ، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو

مجید امجد


عمروں کے اس معمورے میں ہے کوئی ایسا دن بھی جو
روح میں ابھرے ، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو
اتنے کام ہیں، ان مواج صفوں میں خوش خوش پھرتا ہوں
لیکن آج اگر کچھ اپنے بارے میں بھی سوچا تو
ایک سفر ہے صرفِ مسافت، ایک سفر ہے جزوِ سفر
جینے والے یوں بھی جیے ہیں، اک عمر اور زمانے دو
یہ انجانا شہر، پرائے لوگ، اے دل! تم یہاں کہاں
آج اس بھیڑ میں اتنے دنوں کے بعد ملے ہو، کیسے ہو
دنیا جڑی تڑی سچائی، سب سچے ، کوئی تو کبھی
اس اندھیر سے نکلے اپنے جھوٹے روپ کے درشن کو
آخر اپنے ساتھ کبھی تو اک بے مہر مروت بھی
اپنے سارے نام بھلا کر، کبھی خود اپنے گن تو گنو
کچی نیند اور جسم نے دھوپ چکھی اور دل میں پھول کھلے
گھاس کی سیج پہ میں ہوں، تمہارے دھیان ہیں، آنے والے دنو!
فہرست