حضرتِ زینب

مجید امجد


وہ قتل گاہ، وہ لاشے ، وہ بے کسوں کے خیام
وہ شب، وہ سینۂ کونین میں غموں کے خیام
وہ رات جب تری آنکھوں کے سامنے لرزے
مرے ہوؤں کی صفوں میں ڈرے ہوؤں کے خیام
یہ کون جان سکے ، تیرے دل پہ کیا گزری
لٹے جب آگ کی آندھی میں غمزدوں کے خیام
ستم کی رات کی کالی قنات کے پیچھے
بڑے ہی خیمۂ دل میں تھے عشرتوں کے خیام
تری ہی برقِ صدا کی کڑک سے کانپ گئے
بہ زیرِ چتر مطلا شہنشہوں کے خیام
جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا
اکھڑ چکے ہیں ترے خیمہ افگنوں کے خیام
 
فہرست