مریض کی دعا

مجید امجد


کل تک تو یہ دنیا
میرے لیے اک آئینہ تھی
جس میں میری نخوت
آنے والے کل کا یقینی چہرہ دیکھ کے اتراتی تھی
تو تو سب کچھ جاننے والا ہے : میں کتنا خویش غرض تھا
اب تک جب بھی تجھ کو یاد کیا ہے
اپنی نخوت کی اس بھول میں تجھ کو یاد کیا ہے
لیکن آج مجھے اس بات کا ڈر ہے :
کل — جب آنے والا کل آئے گا
میرے بے حس سرد مساموں کو وہ کھرچنے والی روشنیاں
اک ڈھیلے ٹاٹ کے جھول میں میرے جسم پہ شاید
جیتے دنوں کی آخری کرنیں ہوں گی
آج یہ میرا عہد ہے تجھ سے :
کل کو آنے والے کل کے بعد، اگر کچھ دن بھی میرے لیے ہیں
تو مرا اک اک دن اس دن کی اطاعت میں گزر جائے گا
تیرے خزانوں میں جو، میرے سمیت، سبھی کے لیے ہے
اور کسی کے لیے بھی نہیں ہے
تیرے غیب میں تو سب کچھ حاضر ہے
کل کے بعد بھی میرے ارادوں کو توفیق کے دن دے
اے وہ جس کے آج میں فرداؤں کے ابد ہیں
 
فہرست