دن تو جیسے بھی ہوں۔۔۔

مجید امجد


دن تو جیسے بھی ہوں۔۔۔ آخر اک دن
دنوں کی اک اک سچائی کو جھوٹ کے تیشے مقرض کر دیتے ہیں
دیکھو۔۔۔ سوچو۔۔۔
دل کی اس پیچاک میں ہیں جو شکنجے ، وہ تو ویسے ہی تھے
اس پیچاک سے نچڑا ہوا وہ گیہوں، جو، زیتون کا رس تو ویسا ہی تھا
جسموں کی سب کارگہیں تو ویسی ہی تھیں
جب یہ سر فرعونوں کے آگے جھکتے تھے ، تب بھی
جب اک گورا پلٹن اس سنگھاسن پر پہرا دیتی تھی، تب بھی
اور اب بھی جب ہم نے مستقبل کا سارا بوجھ اپنے شانوں پر بانٹ لیا ہے
گورا پلٹن کی سنگینوں کے سائے میں بھی بھوجن ملتا تھا
فرعونوں کی خدائی میں بھی بندے پتل بھات سے بھر لیتے تھے
اور اب اپنے گھروں میں ہم ہر ایک مثلج آسائش رکھتے ہیں
تو کیا صرف ہمیں سچے ہیں؟
کیا وہ سب جھوٹے تھے ؟
یوں تو آج ہم ان پہ ترس کھاتے ہیں
جن کی پتھر ڈھوتی عاجزیاں فرعونوں کے چابک کھاتی تھیں
لیکن کیا اس بات کی ان کو خبرتھی ۔۔۔
کیا اس بات کی ہم کو خبر ہے ۔۔۔
اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے ، اس کا حاصل تو وہ سچائی ہے جس کو
آخر جھوٹ کے تیشے مقرض کر دیتے ہیں
پھر کیوں یہ سب دریا، چہروں، کھوپڑیوں کے دریا، ان گلیوں میں بہتے ہیں
شہرِ ازل کے اونچے پل کی کھڑی ڈھلان سے لے کر
ان گلیوں، ان دہلیزوں تک بہتے آتے دریا
دریا جن پہ شکن ہے ۔۔۔ چھاپ لہو کی
لہریں جن پہ بھنور ہیں ۔۔۔ لہو کی مہریں
آخر اس ریلے میں کون اچھا تھا ۔۔۔
آخر سچ کے تٹ پر کون اترا ہے ۔۔۔؟
اپنی آنکھوں میں یوں کانٹے بھر کر میری جانب مت دیکھو۔۔۔
میں سچ کہتا ہوں، سوچو!
آخر سچ کے تٹ پر کون اترا ہے !
 
فہرست