پھولوں کی پلٹن

مجید امجد


آج تم ان گلیوں کے اکھڑے اکھڑے فرشوں پر چلتے ہو
بچو! آؤ تمہیں سنائیں گزرے ہوئے برسوں کی سہانی جنوریوں کی
کہانی
تب یہ فرش نئے تھے ۔۔۔
صبح کو لمبے لمبے اوورکوٹ پہن کر لوگ گلی میں ٹہلنے آتے
ان کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب جھکتے
لیکن ہم تو باتیں کرتے رہتے اور چلتے رہتے
پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے پاس آ جاتے
بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے :
’’ننھو! سردی تمہیں نہیں لگتی کیا؟‘‘
ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے
لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے
بنا بٹن کے گریبانوں کے پلو ادھڑے کاجوں میں اٹکائے
تیز ہواؤں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھر کر
چلتے چلتے ، تن کے کہتے :
’’نہیں تو، کیسی سردی
ہم کو تو نہیں لگتی…!‘‘
بچو! ہم ان اینٹوں کے ہم عمرہیں جن پر تم چلتے ہو
صبح کی ٹھنڈی دھوپ میں بہتی آج تمہاری اک اک صف کی وردی
ایک نئی تقدیرکا پہناوا ہے
اجلے اجلے پھولوں کی پلٹن میں چلنے والو
تمہیں خبر ہے ، اس فٹ پاتھ سے تم کو دیکھنے والے
اب وہ لوگ ہیں
جن کا بچپن ان خوابوں میں گزرا تھا جو آج تمہاری زندگیاں ہیں
 
فہرست