لوگ یہ۔۔۔

مجید امجد


لوگ گہری نپی تلی تدبیروں والے
جانے ان لوگوں کو کیا ہے ۔۔۔
کبھی کبھی یوں دیکھتے ہیں وہ مجھ کو، جیسے وہ کہتے ہوں:
’’آ اور پڑھ لے انھی ہماری آنکھوں میں تقدیریں اپنی‘‘
اور پھر کبھی کبھی تو ان کی نظریں یوں کہتی ہیں:
’’تو کیا چھپے گا ہم سے ؟ ہم نے تو پڑھ لیں تیری آنکھوں میں سب تقدیریں تیری‘‘
جانے ان لوگوں کو کیا ہے ؟
جانے ان لوگوں کے لہو میں چکنی سی یہ سیاہی کہاں سے آئی ہے جو
مجھ کو دیکھ کے ان کے چہروں کو فولادی رنگ کا کر دیتی ہے
میری قسمت کے یہ دام چکانے والے
میں تو ان کے دلوں کو پڑھ لیتا ہوں
میں تو ان کی روحوں پر چیچک کے داغوں کو بھی گن لیتا ہوں جب وہ
تازہ لہو سے بھر جاتے ہیں
میرے سامنے تو ہے ان کا وجود بس ایک تماشا ۔۔۔
تیرے ارادوں کی نگری میں ان لوگوں کا تماشا
لوگ جو اپنی تدبیروں پر بھولے ہوئے ہیں
 
فہرست