یہ بھی کوئی بات ہے ۔۔۔

مجید امجد


یہ بھی کوئی بات ہے کہنے کی
لیکن لو، ہم کہے ہی دیتے ہیں
دوہا، بول، کبت، کیا رکھا ہے ان میں ۔۔۔
زخم بھلا کب سلے ہیں شبدوں سے ۔۔۔
جلتی سطروں سے کب ڈھلی ہیں تقدیریں
بس، یہی، لے دے کے ، کچھ عرصے کو
دھیمی دھیمی سی وہ جلن دب جاتی ہے
جو اس وقت ابھرتی ہے
جب دل میں گھن لگتا ہے
آخر ذرا سی اس تسکین کی خاطر کون
سارے جگ کا بیر سہے
کون کہے ؟ کیا حاصل ہے اس بات کے کہنے سے ؟
بات بھی یہ کہ زمانے میں:
زینہ بہ زینہ بندے پر تو بندے کی تلوار معلق ہے
چھوڑیں بھی اس بات کو، چلو یہی سوچیں
شاید اک دن کوئی سچ اس سچ کو جھٹلا دے
(اپنا دل تو اگرچہ مشکل سے یہ مانے گا۔۔۔!)
 
فہرست