بانگِ بقا

مجید امجد


ساری نسل پہ گزرا ہے یہ قیامت کا اک دن
ایک ہی دن میں کٹ گئے کیسے کیسے رعنا، مست جوان
اب تو سب پر لازم ہے
حفظِ وجود
سعیِ بقا
جیسے بھی ہو، آج سے اک اک فرد کرے
زائد کام
بڑھ کر، چڑھ کر، گھٹ کر، گھس کر، پہلے سے بھی زیادہ کام
اب تو جٹ جائیں، اس کام میں سب کامی
رچ مچ کے اور مل جل کے
اک یہی کام
پس پس کے اور ہل ہل کے
دم دم، دم دم یہی جتن
کندے تول کے ، پنجے جوڑ کے ، پیہم اک یہی کام
ہم اس نسل کی رعنائی کے محافظ ہیں
نسلِ بیضا، فخرِ جن و انس و وحش و طیور
اب تو پیہم یہی جتن
جانے پھر کب چوبی تختے بچھ جائیں
اور ہمارے ویروں کے سر کٹنے لگیں
بڑی بڑی توندوں والے عفریتوں کی خاطر
جن کے پاک معطر جسم ہماری ہی روحوں کے فضلے ہیں!
 
فہرست