دور، ادھر۔۔۔

مجید امجد


دور، ادھر اس سامنے والے رستے سے جب
آپس میں ٹکراتی آوازوں کی لہر اچھل کر میری جانب والے رستے تک آئی
بیچ میں نیچے پانی تھا ۔۔۔
بیچ میں نیچے اک میدان اور اس میں گھاس اور پودے اور سب کچھ پانی میں تھا
ٹھنڈی رات کے سائے تھے
سامنے والے اس رستے سے آوازوں کی گونج جب اچھلی، نیچے پانی تھا
رات کے سایوں میں اس پانی پر اک چوٹ سی پڑتی تھی
تیزی سے اک آہٹ ڈبکی بھرتی تیر کے بڑھتی تھی
گیلے گیلے پہناووں کو جھٹکتی کیچڑ میں تھپ تھپ چلتی تھی
 
فہرست