جدھر جدھر بھی۔۔۔

مجید امجد


جدھر جدھر بھی دیکھو۔۔۔
ہر سو پھول ہیں، کانٹے ہیں، کرنیں ہیں، اندھیارا ہے
پھر یہ سب کچھ ۔۔۔ اک اک راحت، اک اک جھنجھٹ ۔۔۔ آپس میں گڈمڈ ہے ،
اور یہ سب کچھ مجھ کو گھیرے ہوئے ہے
ہر دم ایک عجیب پریشانی ہے جس کے باعث
اپنے جی میں لہو کے پسینوں کی ٹھنڈک ہے
کتنے اچھے ہیں یہ سب الجھیڑے
سمے کی رو میں دھب دھب چلتے دھندے
کتنی بھلی ہے اک یہ بے مصرف سی مصروفیت
ذہن پہ اک یہ پردہ جس کے اوجھل ہیں وہ باتیں
جن کا دھیان بھی مجھ کو سب خوشیوں سے نا خوش کر سکتا ہے
دھیان ان کا جن کے قدموں کے نیچے میرے باطن کی مٹی ہے
اک دن یہ مٹی ان کے قدموں کے نیچے سے سرک گئی ۔۔۔ تو۔۔۔
 
فہرست