چھٹی کے دن

مجید امجد


چھٹی کے دن گھر سے تو وہ اس کارن نکلا تھا
ذرا گلی کے ہٹی والے سے کچھ سودا سلف خریدے
اور پھر آ کر ترشے ہوئے کرداروں کے میلے میں گھومے ۔۔۔
اس میلے میں وہ سب کچھ تھا
اس میلے کے باہر تو وہ اپنے آپ سے بھی چھپتا تھا
میں بھی اس میلے کے باہر اس سے پہلی بار ملا تھا
اس کے سان گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی، یوں میں اک دن، اتنے قریب سے
اس کی زمینی آنکھیں، اس کے نیلے چپٹے ہونٹ اور اس کے رخساروں کے
میلے ڈھیلے گول مسام بھی دیکھ سکوں گا
لیکن وہ نہیں جھجکا
میں ہی اس کے اصلی روپ کو دیکھ کے سہم گیا تھا
اس کے گرد تو اک وہ مکر کا ہالا ہی اچھا تھا
یہ سوچا اور اس سے رخصت چاہی
اس دن شام کو پھر میلے میں اس سے ملا میں۔۔۔
میں نے اس کو پایا سارے حربوں سے مسلح
چہرے پر اکسائے ہوئے کچھ ایسے تیور
جیسے وہ بس کاٹھ کی روٹی اور پرنور خیالوں پر زندہ ہو
 
فہرست