گہرے بھیدوں والے

مجید امجد


گہرے بھیدوں والے ، تیرا سحر ہی مجھ کو بجھائے یہ اک بات۔۔۔
۔۔۔ بات ایک یہ بات کہ اپنے پاس ہے جو کچھ سب ہے تیری دین
اور پھر ۔۔۔ اک یہ برتا بھی تو تیری دین ہے جس پر ہم
اپنے آپ میں تل کر جیتے ہیں
کبھی کبھی تو اپنے آپ میں بھر جاتے ہیں ایک ہی ٹھنڈی سانس کے ساتھ
میلے من کی بھروائی
تو نے ہم کو سونپا بھی تو اک یہ کیسا کام
بیٹھے ہیں
آنکھیں روح کے بوجھ سے ابلی پڑتی ہیں
کہیں پپوٹوں میں ہے اپنے وجود کے ریزے کا اٹکاؤ سا
اب کیا ہو سکتا ہے ، اپنے جواز کے آگے اپنی سب تردیدیں بے بس ہیں
اندر ہی اندر کوئی شے تالو سے ٹکرائی ہے
ہم کہتے ہیں: ’’اب تک ۔۔۔ ٹھیک ہے ! ۔۔۔ آگے ۔۔۔ دیکھیں گے !‘‘
جانے یوں کن کن بھیدوں کی کٹھالی میں تو ہمیں پرکھتا ہے
جانے یہ بھی اک کیا بھید ہے ، یہ جو میری بابت گمان کا ایک دکھاوا سا
میرے ذہن سے گزرا ہے !
 
فہرست