مرے ہوئے اس اک ڈھانچے ۔۔۔

مجید امجد


مرے ہوئے اس اک ڈھانچے کے حق میں—
یہی تو ہے بس سارا غم اور سب اندوہ
یہی تو ہے اک دکھ کی صورت، ظاہر میں —
اور سارے مظاہر میں
سامنے والے دانتوں کے اندر کی طرف
جیبھ کی نوک مسوڑھوں کی سوجن کو اک دو بار چھوئے
بڑا کرم ہو اگر آنکھوں پر پلکیں بھی کچھ جھک آئیں
اشکوں کو تو دور سے آنا ہوتا ہے
اور ان کے آنے سے پہلے آپ کو جانے کی بھی جلدی ہے
تو بس اتنا کچھ ہی کافی ہے
اتنا کچھ ہی تو ہوتے ہیں سارے غم اور سارے سوگ
چہرے پر اک لمبی پیلاہٹ
اور ایسے میں جیبھ کی نوک مسوڑھوں سے یوں چپک چپک کے گرے
جیسے اک بے حرف آواز کہے
’’کتنا اچھا آدمی تھا۔۔۔ ‘‘
ذرا سے اپنے اس اک استحقاق کی خاطر آج تو میں نے مر کر بھی دیکھا
ایسا وقت جب آئے تو آپ اتنا کچھ تو کیجیے گا
اپنی اس
کم فرصت رنجوری کے باوصف
 
فہرست