اے رے من ۔۔۔

مجید امجد


اے رے من
تیرے بھی تو ہیں کیسے کیسے دکھاوے
آج تو میں نے بالکل واضح دیکھا۔۔۔ اس کا چہرہ
جسے وہ زندہ ہو۔۔۔
دھوپ میں ۔۔۔ چلتے چلتے ۔۔۔ میں نے دیکھا اس کا چہرہ ۔۔۔
چہرہ ۔۔۔ جیسے ہوا کی تہوں کا چھلکا۔۔۔
میں جس دھوپ میں تھا وہ دھوپ تھی اس کے گرد اک چھتری
جس کی چمک میں
چینہ چینہ چیچک سے وہ چہرہ ویسا ہی چترک تھا
جیسا دنیا میں تھا۔۔۔
اور وہ دانے اب بھی چمکتے چمکتے بھلے لگتے تھے
جانے اب وہ کس دنیا میں۔۔۔ کچی اینٹوں کی چھتری والے کون سے گھر میں
کن اندھیاروں میں ہو۔۔۔
وہ… جس کی بابت سوچوں تو سینے میں اک جھلی تپ جاتی ہے
وہ جو مٹی میں اب مٹی کا چھلکا ہے ۔۔۔
۔۔۔ مٹی جس پر بارش کے دانوں کے دھبے ہیں ۔۔۔
شاید تیرا ہی یہ پاگل پن تھا۔۔۔ کون اب اس کو دیکھ سکے گا
اے رے من
تیرے بھی تو ہیں کیسے کیسے دکھاوے
تجھ پر ہنسنے کو جی چاہا
ورنہ یوں کوئی یاد آئے تو آنسو کس سے رک سکتے ہیں
 
فہرست