زائر

مجید امجد


ان کی جیبوں میں ہیں ارض و بقا کی کلیدیں
لیکن ان گچھوں کی ایک بھی چابی ان کے دل کے کالے تالے کو نہیں لگتی
اور وہ ننگے پیروں چل کر تیری چوکھٹ پر آتے ہیں
تیرے جلالت والے چتر کے آگے جھک جاتے ہیں
ان کی روح کے ایک پرانے گڑھے سے خلوص کا لاوا ابل پڑتا ہے
وہ روتے ہیں
تجھ سے مانگتے ہیں وہ سب کچھ، جس کو تو نے تیاگ دیا تھا
اور ادھر اک میں ہوں
کیسے مانگوں تجھ سے وہ دنیا جس کا سورج اک دن تیرے دل سے ابھرا تھا
اپنے پاس تو اس دنیا کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں ہوتے
جس دن ہوں بھی، اس دن اپنا ارادہ بھی نہیں ہوتا
تیری نورانی مٹی سے باہر جو مٹی ہے
جانے اس مٹی میں کیسے کیسے کافر تیری محبت میں جیتے ہیں
تو نے دیکھا؟
 
فہرست