میری عمر اور میرے گھر۔۔۔

مجید امجد


میری عمر اور میرے گھر سے باہر
اس دائم آباد محلے … اس اینٹوں کے ابد میں
وہ جو کچھ عمریں ہیں نیچی نیچی چھتوں کے نیچے ۔۔۔
ان کی نمود اور ان کی نمو سے میری پلکوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی سوجن ہے
ان کو دیکھ کے میں دنیا کو بوجھل بوجھل نظروں سے تکنے لگتا ہوں
کتنے اچھے تھے وہ میرے گزرے دن جو اب ان عمروں میں ہیں
جب یہ عمریں میرے گزرے دنوں سے گزر کر
اک دن میرے نہ ہونے میں ہوں گی
تو جانے میری بابت کیا سوچیں گی۔۔۔
اک یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا ہے
تو ان اینٹوں کی عمروں پر رشک آیا ہے
جیسے آج نقابوں میں یہ نظریں، بجلی کے ریشوں سے بنی ہوئی یہ خانے دار کمندیں
میری روح کو چھو کے پلٹ جاتی ہیں
ویسے ہی کل بھی شاید یہ نظریں اک بار اٹھیں ان اینٹوں کی جانب
اینٹوں کی یہ چادر جس کا اک پلو ہی باہر تیرے گا جب میرا پیکر
گارے کے گرداب میں ہو گا
پھر بھی آج تو سوکھے سوکھے حلق اور سوجی سوجی پلکوں سے
اس دنیا کو دیکھنے میں جو دکھ ہیں، جو ارمان ہیں، یہی تو عمروں کا حاصل ہیں
 
فہرست