اپنے یہ ارمان۔۔۔

مجید امجد


اپنے یہ ارمان تو سب غرضیں ہیں، کھری بھی اور کھوٹی بھی
ان سب غرضوں کی دھن اس کی دھن ہے
اور ہمارے خیالوں کے اندر تو بھونروں کی روحوں کے بھنور ہیں
امڈ امڈ کر اپنی غرض کی سیدھ میں ہم آتے ہیں
جو بھی رستہ کاٹے اس کو ہم ڈستے ہیں
پھر جب من کی باتیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں
ذہن ہمارا دنیا والوں کے بھیدوں کو پرکھنے لگ جاتا ہے
اک یہ پرکھ ہی تو ہے جو یوں نفرت سکھلاتی ہے
اپنی محرومی لاکھوں شاخوں والی اک قدر ہے جس کی
سب سے مقدس ٹہنی پر نفرت کا پھل لگتا ہے
میرا جی تو بھر بھی چکا اس پھل سے
کب تک دیکھوں میں ٹیڑھی پلکوں سے ان لوگوں کو
میری دید سے جو غافل ہیں
کیوں نہ بہا دوں اک تنکے کی طرح اس دنیا کو اس ندی میں جو
تیری روح کے باغوں میں بہتی ہے
منوا، آج تو تو نے یہ کیا سوچا
سدا پھلیں یہ تیری میٹھی سوچیں، مورکھ منوا!
 
فہرست