وہ تلوار ابھی۔۔۔

مجید امجد


وہ تلوار ابھی تو اک فولادی خواب ہے تیرے ذہن کی ان تھک کارگہوں میں
اک دن جب یہ اصیل اور جوہردار عمل پارے آپس میں جڑ کر
تیرے دل کی نیام میں ڈھل جائیں گے
پھر جب اک دن یہ تلوار چلے گی۔۔۔
لیکن اس دن کے آنے تک۔۔۔ ابھی تو کچھ دن۔۔۔
لاکھوں روگوں والی نگری میں مٹی کی اس پٹڑی پر
اپنے دامن میں کیچڑ کے ان پھولوں کو لے کر چلنا ہو گا
ابھی تو اور بہت کچھ ہو گا
نیلی ٹین کی یہ چھت کڑکے گی اور سہما سہما وجود پچک جائے گا
باہر جانے کتنی آنکھیں ہنسیں گی اور جبڑے کھنکیں گے
ایسے میں تو گہری بنیادوں والے اک سانس کے بل پر ہی تو
ان سب کالی دنیاؤں کے بوجھ کو اپنے سر سے جھٹک سکے گا۔۔۔
لیکن ابھی تو سب کچھ اک فولادی خواب ہے تیرے ذہن کی ان تھک کارگہوں میں
ابھی تو ہر ہونی ان ہونی نظر آتی ہے
ابھی تو سب کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔
شاید تو تھک بھی جائے
شاید اپنے جی کے اسی جیالے پن میں تو جی بھی لے
 
فہرست