یہ دو پہیے ۔۔۔

مجید امجد


یہ دو پہیے ارض و سما ہیں
اور اس اپنی عمر کی سب تسکینیں بچھی پڑی ہیں ان سڑکوں پر
دو پہیوں کے ارض و سما کا جستی دستہ تھام کے میں نے
چلتے چلتے اکثر سوچا ہے ، یہ سڑکیں بھی کتنی اچھی ہیں
ان کے باعث میرے دھیان میں آ جاتے ہیں وہ سب اچھے اچھے کام
اور اچھی اچھی باتیں
جن کی خاطر میں نے
ارض و سما کے پہیوں کو اس نیلی پٹڑی پر گرداں رکھا ہے
اور ، اک عمر کے بعد، اب یہ سمجھا ہوں: دھوپ کی لو میں تپتی ہوئی یہ بجریلی
سطحیں اچھی ہیں ان لوگوں سے
جو ان پر چلتے ہیں۔۔۔ جن کے غرور کی جھوٹی ٹھنڈک کبھی بھی ان کے دلوں میں
نہیں پگھلتی۔۔۔
چلتے چلتے اکثر میں نے سوچا ہے ، میں کن لوگوں کی دنیا میں ہوں
یہ سب کیسے لوگ ہیں، جن کی آنکھوں میں پتھرائے ہوئے پچھتاوے کبھی کبھی کروٹ نہیں بدلتے
لوگ جو اپنے سوا ہر اک شے کی جانب بے رخ ہیں
کس نے دیکھا، میرا دل تو بچھا ہوا ہے ان سڑکوں پر، ان بے رخ قدموں کے نیچے
کس نے دیکھے پہیے ارض و سما کے چلتے ہوئے ان بجریلی سطحوں پر
کس نے پہچانے وہ ہاتھ کہ جن کے بس میں ان پہیوں کی گردش کا ہر رخ ہے
اپنی دھن میں چلتے رہیو
چلتے پہیوں میں چکراتی ہیں جھنکاریں چلتے کروں کی
پیڈل روک کے دیکھو، زنجیروں کے دندانوں میں کتے بول اٹھتے ہیں
 
فہرست