تم کیا جانو۔۔۔

مجید امجد


تم کیا جانو، مجھ سے پوچھو، میں اس مٹی کی سوکھی پتلی تہہ پر کھیلا ہوں
اس مٹی کی تہہ کے نیچے گدلا گاڑھی گہرا پانی ہے سیلانی سیلابوں کا
پھر وہ دن بھی تھے کچھ بڑے البیلے اور تب علم بھی مجھ کو نہ تھا ان دنوں کا جب
ہر ذرہ سورج بن جاتا ہے
ہر سو مٹی کی اس سوکھی پتلی تہہ پر لوگ نرالے دنوں کی خوشی میں چوکڑیاں بھرتے پھرتے تھے
میری طرح سب کالے ذرے چمکیلے خوابوں میں گم تھے
اور کچھ میں بھی تھا اک ایسی دنیا میں، جس میں سارے لوگ اک جیسے تھے
تم کیا جانو، کن جتنوں سے اب میں ان وقتوں کے سارے کھتان اور ساری دلدلیں
پھاند کے اس دنیا تک پہنچا ہوں، جس میں اب میرے سوا سب کچھ ہے !
تم کیا جانو، تم تو آج اک مجھ سے نفرت کرنے والی شفقت اپنی آنکھوں میں بھر کر آئے ہو
یہ نفرت تو اک مزمن بے علمی ہے
اور یہ شفقت بھی تو خودافروز دلوں کی اک متعدی بیماری ہے
میری ساری دعائیں تم پہ تصدق، کیا تم یوں میری بے مائیگیوں کا مول چکا سکتے ہو
دیکھو، تم خود مٹی کی اس سوکھی پتلی سی تہہ پر اور کروڑوں آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہو
جس کے نیچے سیلانی سیلابوں کا پانی ہے !
 
فہرست