اور اب یہ اک سنبھلا سنبھلا۔۔۔

مجید امجد


اور اب یہ اک سنبھلا سنبھلا، تھکا تھکا سا شخص
اب بھی جس کے جھریوں والے چہرے پر اک پیلی سوچ کا بچپن ہے
ساری عمر اس کی
اپنی اس اک دھن کو بڑھاوا دینے میں گزری:
’’مگن مگن بیٹھیں…
چاندی کی چھت کے نیچے
اس قرنوں کے بچھونے پر
مگ مگن بیٹھیں!
چنیں خود اپنے خیالوں کے کنکر
یہ کنکر مل کر بن جائیں گے لوحیں
لوحیں جن کو دنیا اک دن پوجے گی۔۔۔
اور اب یہ اک شخص
اک جانب کو اس کے قد کا جھکاؤ
اور اسی جانب کے بوٹ کی ایڑی گھسی ہوئی
اور اسی جانب کا کوٹ کا پلو مڑا ہوا، اک جامد بازو کے نیچے
اور وہ خود ساکت
اس کے گرد ہزاروں تیز ہراساں قدموں کا اک لہراتا جنگل
اور وہ ان قدموں کے سفر میں تنہا
جاتے جاتے کسی نے پوچھا: ’’بھائی کیسے ہو؟‘‘
اس کی آنکھوں میں بچپن لوٹ آیا
ہنس کے وہ کہنے لگا:
’’تم تو مجھے پہچانتے ہو، تم جانتے ہو جو زینہ تمھارے دل سے میرے دل تک ہے
تم میرے دل تک آ سکتے ہو
آؤ گے ؟
آؤ، بیٹھ کے اپنے خیالوں کے کنکر رولیں
یہ کنکر مل کر بن جائیں گے لوحیں
لوحیں جن کو دنیا اک دن پوجے گی
اور پھر اک دن امڈ پڑے گا زمانہ ہماری طرف‘‘
اور وہ اک لمبے رستے کی شطرنجی پہ اکیلا کھڑا تھا
اور جو قدم اس نے ابھی آگے کو بڑھانا تھا اس ایک قدم کا کرب
اس کے بھربھرے سے چہرے کے میلے مساموں تک رس آیا تھا اور اس کا ماتھا چاندی کا تھا
 
فہرست