مینا

مجید امجد


جب تو ان کے گھر کے صحن میں اک مینا تھی، چاندی کے پنجرے میں
تجھ کو وہ دن اچھے لگتے تھے نا
تب تو تجھ کو اس کی خبر بھی نہیں تھی، تیرے آب و دانے میں کیا ہے
تجھ کو خبر بھی نہیں تھی۔۔۔
تب تیرا چوگا تو انگوروں کے رس میں گندھا ہوا نمکیلا بھیجا تھا
ان جلتی آنکھوں والی بے تن کھوپڑیوں کا
جن کے مہین خلیوں میں اک وہ چنگاری چٹکی تھی جو سرِ بقا ہے !
تجھ کو وہ دن اچھے لگتے تھے نا
اور اب بھی تجھ کو وہ دن یاد آتے ہیں نا۔۔۔اب بھی
اب جب تلواروں کی نوکیں تیرے گلے پر رکھ کر تجھ کو پیار بھری نفرت
سے یوں چمکارنے والے
اپنے جسموں کی مٹی میں خوابِ فنا ہیں
میری باتیں سن کر مجھ کو ٹک ٹک دیکھنے والی، چوکورآنکھوں والی مینا
ہاں وہ قاتل اچھے تھے نا
اب تجھ کو وہ دن یاد آتے ہیں نا
اب اس وادی کی بھرپور گھنی سبز لتا میں اڑنا اور یوں راتب چننا کتنا
مشکل ہے !
اب یوں اڑنے میں تیرے پر دکھتے ہیں نا، مینا!
 
فہرست