کہاں سفینے ۔۔۔

مجید امجد


کہاں سفینے اس خود موج سمندر میں ان روحوں جیسے
روحیں جن کے خیال سے میں جیتا ہوں
جب دریا چڑھتا ہے اور جب اس کی کوئی سیہ سی لہر اچانک
میرے دل کے ٹھنڈے پانیوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے
تو میں سب پتواریں چھوڑ کے ، بے بس ہو کے ، اتر جاتا ہوں
ان ہوتے امروں کی منشاؤں میں
اور اس اک وقفے میں، ڈرتے ڈرتے
جلدی سے بھر لیتا ہوں، اپنی آنکھوں کی کشتیوں میں، ان سب لوگوں کو
جن کے خیال سے میں جیتا ہوں
تب میری پلکوں کے سایوں میں یہ روحیں، سب اک ساتھ، اکٹھی
کشاں کشاں، اس کوشش کے محور میں آ جانے کا جتن کرتی ہیں
جس کی کشش سے سب دریا چڑھتے ہیں
کہاں سفینے اس خود موج سمندر میں ان روحوں جیسے
روحیں جو میرے جی میں جیتی ہیں۔۔۔
 
فہرست