حرص

مجید امجد


اوروں کی کیا کہیے ، خود میرا دل بھی انگاروں کا مطبخ ہے
سدا مری آنکھوں میں اک وہ کشش دہکتی ہے جو
سب کو اپنی جانب کھینچ کے میرے وار کی زد میں لے آتی ہے
سب کچھ میری طلب کی تشنگیوں کے دہانے پر ہے
انگاروں کے اس مطبخ میں گرنے کو ہے
گاڑھا، لجز لہو، اک وہ کیلوس جو انگاروں کا استحالہ ہے
اس میرے دل کی کالی قوت ہے ، میں جس کے بس میں ہوں
یہ قوت مجھ سے کہتی ہے
دیکھ، مرے انگارے میری تڑپ کا انگ ہیں، اب کچھ تو ان کی خاطر بھی
اور انگارے اگلتی سانسوں کے ساتھ اب میں
اس دنیا کے اندر اپنے شکار کی تلاش میں
اک اک روح کی گھات میں
اک اک روح کے سامنے سوالی بن کے کھڑا ہوں
میرے دل میں انگاروں کے دندانے پیہم جڑتے اور کھلتے ہیں
باہر کسی کرم کی بناوٹ میں ہونٹ ایک انوکھا ٹھہرا ٹھہرا ٹیڑھا زاویہ سا ہیں
کون مجھے اب پہچانے گا
کس طرح ہنس ہنس کر مجھ سے
ملتی ہے دنیا، بدبخت!
 
فہرست