جاگا ہوں تو۔۔۔

مجید امجد


جاگا ہوں تو جاگتی آنکھیں کہنے لگی ہیں: ’’یہ سب سپنے اپنے ہیں‘‘
جیسے میں ہی تو ہوں اپنے ہر سپنے میں
میں ہی تو ہوں اپنی جاگرتی میں
نیندوں کے اندر بھی، نیندوں کے باہر بھی، جو جو سمے گزرتے ہیں وہ میرے
ذہن میں سب ڈھلتے ہیں
دنیا کا ہر اک دن میرے ذہن میں ڈھل کر اک اور دن ہے
جیسا آج کا دن تھا
رات کو نیندوں میں کچھ اچھے اچھے لوگ ملے تھے ، انھی چھتوں کے نیچے
جن کی دیواریں اب کب کی گر بھی چکی ہیں
دن کو میرے جاگنے میں کچھ اور ہی میلی میلی روحیں میرے ساتھ رہی ہیں
روحیں جن کی اونچی چھتوں کے نیچے میرے وجود کی دیواریں ہیں
کیسے کیسے نگر ہیں جو تیرے روز و شب کے پھیرے میں پڑتے ہیں
کیسی کیسی اقلیمیں ہیں میرے دل کے کوٹھے کے اندر، جو ڈھے بھی چکا ہے
آج تو جب سے جاگا ہوں، اپنی بابت اتنا کچھ سمجھ سکا ہوں
کالی گلیوں کی دھوپ اپنے چہرے پر مل کر یہ دنیا والوں سے ملنے والا
مر بھی چکا اب، اپنی نیندوں میں جینے کی خاطر
 
فہرست