ان سب لاکھوں کروں۔۔۔

مجید امجد


ان سب لاکھوں کروں، زمینوں کے اوپر لمبی سی قوس میں، یہ بلوریں جھرنا
جس کا ایک کنارا، دور، ان چھتناروں کے پیچھے ، روشنیوں کی
ہمیشگیوں میں ڈوب رہا ہے
جس کا دھارا میرے سر پر چھت ہے
اور میں اس پھیلاؤ کے نیچے
کبھی نہ گرنے والی، گرتی گرتی چھت کے نیچے
ریزہ ریزہ کرنوں کے انبار کے نیچے
اپنے آپ میں سوچوں
ایسی شامیں تو جگ جگ ہیں
آگے تو جانے کیا کچھ ہے
لیکن ان سب ہوتے امروں کے ریلے میں
کہیں کسی امکان۔۔۔ ذرا سے اک امکان۔۔۔ کی اوٹ ایسی بھی تو ہو
جس میں سمٹ سکے یہ میلی میلی سی چھت
اور یہ اترے پلستر والی بوسیدہ دیواریں
جن کی کھڑکیاں میرے دل کی طرف کھلتی ہیں
 
فہرست