کندن

مجید امجد


اپنے اندر جو کندن ہے اس کا لشکارا تو سدا ہماری آنکھوں میں جیتا ہے
سدا ہمارے ذہن میں اک چمکیلی راحت کے لالچ کو اکساتا ہے
لوگ، جب اپنے مطلبوں کی خاطر یوں عجز کی باتیں کر کے ہم کو عاجز کر دیتے ہیں
تو ایسے میں ہمارے اندر جو کندن ہے ، ہماری آنکھوں میں آ کر
ایک لجاجت بھری ہنسی ہنستا ہے
اسی ہنسی کے پیچھے تحفظ کا اک ان دیکھا پنجہ بھی جھپٹتا ہے اور
نظر نہ آنے والا ایک تصرف کا جبڑا بھی غراتا ہے
یہ سنگین و ملائم رمز مروت کی، سارے مفہوم ادا کر دیتی ہے ۔۔۔ اور
اسی کے پردے میں، گہرے بھیدوں کے اندر، زندگیوں کی حفاظت کرنے والی
خودغرضی جیتی ہے
اس سچے لشکارے والے کھوٹے کندن کی ضو
سدا ہماری آنکھوں میں جیتی ہے
اور اس پر ہم کتنے خوش ہیں
 
فہرست