طغیان

مجید امجد


میرے اپنے ظلم اور میرے اپنے کفر کے آگے ، مجھ میں یہ جو عاجزیاں ہیں
ان سے ملوث ہے میری ہستی
میں نے چاہا تھا ان عاجزیوں کی جگہ پر اک سنگین طمانیت کو اپنے سینے میں رکھ
لوں جس میں نئی نئی کڑواہٹ کی خوشیاں ہوں
میں نے کچھ یہ مہم سر کر بھی لی تھی
لیکن چلتے چلتے ذرا سا ایک خیال آیا ہے
پھر کالی سی اک برگشتگی میرے ذہن میں چکرائی ہے
اور میری پلکوں کی ڈوریاں ڈھلک گئی ہیں
میرے مردہ دنوں کی کھوپڑیوں سے ظلم اور کفر کی میٹھی نظروں نے پھر سے
میری جانب جھانکا ہے
بیتے دنوں والا یہ چہرہ۔۔۔
اس چہرے کو، اس چہرے کی آنکھوں کو، میں بھلا بھی چکا تھا
ان آنکھوں کو اپنے جذب اور اپنی کشش کا علم ہے ، اور ان کے اس علم کے آگے
اب پھر میری خودآگاہی ماند ہے
اس طغیان کے آگے اب پھرعاجز ہوں
اب پھر، بصد خوشی اس اپنی عاجزی کے آگے بے بس ہوں
مجھ سے پوچھو۔۔۔ اپنی غرقابی کے اس احساس کی سطحیں بھی کتنی دلکش ہیں
 
فہرست