پچھلے برس ۔۔۔

مجید امجد


پچھلے برس جب یہ دن آئے تھے ۔۔۔ دن جو اس سال اب بھی آئے ہیں ۔۔۔
جب یہ بادل، جب یہ کہرا، جب یہ سرد ہوائیں ۔۔۔ جب یہ سب کچھ تھا
جو اب کے برس ہے
تب تو میرے ساتھ اک اپنے آپ کے گم ہو جانے کی آگاہی بھی تھی
تب تو اس پگڈنڈی پر بادل بھی دھول تھے ، جس میں میرے پاؤں کھبے ہوئے تھے
تب تو میں اور یہ بستی اور یہ پگڈنڈی ۔۔۔ بادل ہی بادل تھے
آج اس پگڈنڈی پر چلتے ہوئے وہ اک دن یاد آتا ہے
اس دن بادل میرا پہناوا تھے
میں جب میلی سی اک صبح کی تنہائی میں ادھر سے پچھلے برس گزرا تھا
آج بھی بادل ۔۔۔ گیلی گیلی تہوں میں ڈھیر دھوئیں کے ۔۔۔ ادھر ادھر ہر سو ہیں
ڈھیر دھوئیں کے ، قوسوں سے قوسوں تک، پیڑوں پر، کھیتوں میں، کچی دیواروں پر
صرف اک میرا دل ان سے خالی ہے
کیسے کیسے ابد۔۔۔ جو بیت گئے ہیں
 
فہرست