21 دسمبر971

مجید امجد


رات آئی ہے ، اب تو تمہارے چمکتے چہروں سے بھی ڈر لگتا ہے
اے میرے آنگن میں کھلنے والے سفید گلاب کے پھولو
شام سے تم بھی میرے کمرے کے گلدان میں آ جاؤ ۔۔۔ ورنہ راتوں کو
آسمانوں پر اڑنے والے بارودی عفریت اس چاندنی میں جب
چمک تمہارے چہروں کی دیکھیں گے
تو میرے ہونے پر جل جل جائیں گے اور جھپٹ جھپٹ کر
موت ک تپتے دھمکتے گڑھوں سے بھر بھر دیں گے اس آنگن کو
اب تو تمہارا ہونا اک خدشہ ہے
اب تو تمہارا ہونا۔۔۔ سب کی موت ہے
شاخ سے ٹوٹ کے میرے خود آگاہ خیالوں کے گلدان میں اب آ جاؤ
۔۔۔اور یوں مت سہمو۔۔۔ کل پھر یہ ٹہنیاں پھوٹیں گی۔۔۔ کل پھر سے پھوٹیں گی
سب ٹہنیاں
آتی صبحوں میں پھر ہم سب مل کے کھلیں گے اس پھلواڑی میں۔۔۔
 
فہرست