باہر اک دریا۔۔۔

مجید امجد


باہر اک دریا پیلی آنکھوں کا لہراتا ہے
آنکھیں، جن میں پتوں کا پانی رس رس آتا ہے
ہم کو دیکھ کے
اب ایسے میں کس کس بوجھ کو سر سے جھٹکیں
دل میں نیکیاں دہل دہل جائیں اور اپنے گن ڈھارس نہ بنیں
ہر جانب سے ذہنوں میں امڈی ہوئی کالی حرصیں
اپنے برچھے تان کے دھیرے دھیرے گھات میں
ہم کو دیکھ کے
اب ایسے میں کون بتائے ، کن جتنوں سے ہم نے اپنی دبلی پسلیوں کے نیچے ان
اپنے دلوں میں سنبھال کے رکھی ہیں یہ اتنی اذیت دینے والی سب تسکینیں
جن کے باعث
ہم پتوں کے پانیوں سے بھری ہوئی ان صدہا آنکھوں کے سامنے ڈرتے بھی ہیں
اور اس ڈر میں جینے کا دکھ خوشی خوشی سے سہتے بھی ہیں
 
فہرست