لمبی دھوپ کے ۔۔۔

مجید امجد


لمبی دھوپ کے ڈھلنے پر اب مدتوں کے بعد ایک یہ دن آیا ہے
دن جو ایسے دنوں کی یاد دلاتا ہے جو سدا ہمارے ساتھ ہیں
اس کہرے میں، اس جاڑے میں
امڈے ہوئے ان ریزہ ریزہ بادلوں میں وہ سب نزدیکیاں ہیں جو
میرے وجود کا طلسم رہی ہیں
ورنہ کتنے دور ہیں دکھ جو صدیوں کا حصہ ہیں
کتنی دور ہے موت جو ان سب بستیوں پر چھائی ہے ، ان سب ہستیوں کا
حصہ ہے
اس لمحے تو دکھ اور موت کی ان نزدیکیوں میں بھی زیادہ قریب ہے
وہ غافل کر دینے والی بے حس زندگی
اور وہ زندہ رکھنے والی جابرغفلت
جو اس میرے وجود کا طلسم ہے
اس ٹھنڈک میں یہ اک دھیمی دھیمی سی مانوس تمازت
ساری بھولیں، سارے خیال، اس کی کونپلیں
میرے گھر میں آم کے پیڑ کے نیچے تو خندق ہے ، اب کے کھاد اس کو کیسے ڈالیں گے ؟
کب آئیں گے آنے والے دن اور بور اور کونپلیں؟
کبھی نہ آنے والی رتوں کے دھیان کہ جن پر آج تو نظریں جم جاتی ہیں
اور میں سوچتا بھی نہیں، کیا کوئی کل بھی آئے گا؟
ساری ندامتیں بھول گیا ہوں
اور وہ سب نزدیکیاں جن کو میں نے اب تک اتنی دوری سے دیکھا ہے
آج تو وہ سب میرے سامنے ہیں، اس جاڑے میں مدت کے بعد آنے
والے اس کہرے میں
 
فہرست