اندر روحوں میں۔۔۔

مجید امجد


اندر روحوں میں جو اک روشن روشن قوت ہے ، وہ تو ہماری ہے اور بے تسخیر ہے
یوں ہی سمجھ لیں
پھر بھی لاکھ بچائیں اپنے دلوں کو، دھبا تو پڑ ہی جاتا ہے
یہ نورانی قوت تو مٹی کے رابطوں سے ہے
چھتیں رکوعوں کی، ڈھالیں سجدوں کی، اور دعاؤں کے سب قلعے
کوئی تمہارے حلق پہ جب مٹی کا انگوٹھا رکھ کر کچھ کہتا ہے
تو سب قلعے گر پڑتے ہیں
چڑیا اپنی پیاس بجھانے سمندر کے ساحل پر آتی ہے تو اپنی ننھی چونچ میں
کتنا پانی پی لیتی ہے !
نیکی بھی تو سمندر ہے جو سب روحوں میں روشن روشن اور مواج ہے
ہم کتنا پانی پی لیں گے اس سے ؟
لاکھ بچائیں، دھبا تو پڑ ہی جاتا ہے دل پر
ان پہ سلام کہ جن کے قدموں کی مٹی سے دونوں جہانوں
کی تقدیسیں ہیں
 
فہرست