اس دنیا نے اب تک۔۔۔

مجید امجد


اس دنیا نے اب تک ہم کو ہمارے جس بھی دکھاوے سے پہچانا
ہم نے اس کی پرستش کی ہے
اور اب اس کی حفاظت کرتے کرتے اس کی حقیقت کو بھی کھو بیٹھے ہیں
سچ تو تھا ہی نہیں کچھ پہلے سے ، اور جھوٹ کی جو اک صورت تھی وہ بھی
نہ رہی اب
اب تو دنیا سے چھپ چھپ کر ان دیسوں میں ہم پھرتے ہیں
جن میں کوئی ہمیں پہچاننے والا نہیں ہے
اب تو نہ اپنے سامنے آ سکتے ہیں۔۔۔ اپنا دکھاوا ہی ہم پر ہنستا ہے
اور نہ غیروں ہی کے آگے اپنے اصلی روپ کو لا سکتے ہیں
۔۔۔خیر سے بغیر اس اپنے دکھاوے کے ہم ہیں ہی کیا!
اب انجانے دیسوں میں پھرتے پھرتے اپنے دکھ یاد آئے ہیں
اب ان دکھوں میں جینا، اب اس نامحرم اور مونس دھوپ میں پھرنا
اپنے خلاف عمل کرنا ہے ۔۔۔ اپنے دکھاوے کو جھٹلانا ہے
اپنے لیکھ پہ اب پچھتانا ہی اچھا جس میں سب سچی پہچانیں ہیں
اک یہ روپ ہی جس کی ذلت کی عزتیں اک جیسی ہیں، ہماری نظروں میں بھی اور
غیروں کی نظروں میں بھی!
 
فہرست