کبھی کبھی تو۔۔۔

مجید امجد


کبھی کبھی تو خوداندوزی کی کیفیت میں، جب
میرا کاسۂ سر ٹھوڑی تک اس میرے سینے میں دھنس جاتا ہے
اور جب میری گردن ہل بھی نہیں سکتی، اور ایسے میں جب
اس دنیا کی بابت میرا جھوٹا سچاعلم مری آنکھوں سے اس دنیا کی جانب
جھانکتا ہے تو
مجھ میں اک فوقیت کا احساس ابھرتا ہے اور میں کس نفرت سے ان سب
لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتا ہوں جو
میرے جھوٹے سچے علم اور میری جھوٹی سچی فوقیت کا ماخذ ہیں
اوروں کے بھیدوں اور ان بھیدوں کے عیبوں سے آگاہی کیسی فوقیت
ہے جس میں
میرا دل اک کبریائی سے بھر جاتا ہے
اور میں اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہوں
اس اک آگاہی میں کیسی کیسی غفلتیں اور بے علمیاں ہیں، یہ کس کو خبر ہے
لیکن وہ جو اک کیفیت ہے ، جب کاسۂ سر اس طرح سے تھوڑی تک سینے
کے خول میں دھنس جاتا ہے
اور جب گردن ہل بھی نہیں سکتی اور آنکھیں ٹکٹکی باندھ کے
اپنے شکار کی جانب گھورتی ہیں، اک وہ کیفیت تو بندے کے خدا ہونے کی گھڑی ہوتی ہے
ساری گراوٹیں اس جھوٹی فوقیت سے اگتی ہیں
پھر بھی دنیا تو صرف ان لوگوں سے ڈرتی ہے نا جن کی گراوٹیں دوسروں
کے عیبوں کو جانتی ہیں
کون مجھے پہچانے گا؟ کہنے کو تو سب کے دلوں کے دروں خانے میں میرا
صدق گزر رکھتا ہے
 
فہرست