ڈھلتے اندھیروں میں۔۔۔

مجید امجد


ڈھلتے اندھیروں میں، کچی مٹی پر، کولتار کی سڑکوں پر، ہر جانب
وہی پرانی، کھدی ہوئی سی لکیریں پہیوں کی اور وہی پرانی گرد، عناد
اور جمگھٹ
وہ پرانی روندی ہوئی سی صبحیں۔۔۔
لیکن کہاں سے آئی ہیں یہ دل کے مساموں میں بھر جانے والی مہکاریں
ان دیکھے پھولوں کی
کانوں کے پردے بجتے نظر آتے ہیں۔۔۔ تھمے ہوئے سب شور اور دل
کے پردے بجتے نظر آتے ہیں۔۔۔
ازلیں بھی ایسی ہی خوشبوؤں میں جاگی ہوں گی
شام کی سڑکیں، وہی پرانے چہرے
سارے دن کی تھکی ہوئی یہ عبودیت
اور بے مہرنگاہوں کے آواز ے ہر سو
سب لوگ اپنے دلوں کی دھرتی پر بے مامن، سب ان راہوں پر بے منزل
یونہی جانے کب سے ۔۔۔
اور بستی کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اب کتنے سکون سے نہر میں پانی
دھیرے دھیرے چمکتا چمکتا رواں ہے ۔۔۔ اب، جب رات کا سارا کالا بوجھ
ان گھنے گھنے پیڑوں پر آن جھکا ہے
دیواروں کے گھیرے میں اب یہ کیسی نیندیں سلگ اٹھی ہیں جن کے عبیری دھوئیں میں موت
اور زیست کی سرحدیں مل جاتی ہیں
ایک زمانہ ختم ہوا ہے ۔۔۔ اک دن گزرا ہے
 
فہرست