سدا زمانوں کے اندر۔۔۔

مجید امجد


سدا زمانوں کے اندر۔۔۔
ذہنوں میں بھی، اور زبانوں پر بھی، تیرے ہیں بے جسم وجودوں والے جو جو نام
ان کے ابد کیسے ہیں، اور کیا ہیں
سب کچھ بس اتنا کہ ہم اب بھی ان ناموں کو دہرا کر اپنے جی کو گدلا کر لیتے ہیں
ورنہ یوں تو جانے کب سے طاقِ جہاں پہ ابد کے مرتبانوں میں ان کے مرتبے
پڑے پڑے سب گلتے ہیں
کبھی کبھی ان مرتبانوں سے ذرا ذرا سا دکھ چکھ کر ہم اپنی روح کا ذائقہ بدل لیتے ہیں
اور اپنے جی کو گدلا کر لیتے ہیں
لیکن اس سے ان جسموں کو اب کیا لابھ ہے جو خود تو اب مٹی ہیں اور جن کے نام
ہمارے ذہنوں میں بھی اور زبانوں پر بھی جاری ہیں
ان سے تو اچھا ہے گتھم گتھا بازاروں میں اس بھرپور طمانیت سے شاپنگ کرنے والا یہ اک شخص
کوئی ابد بھی جس کی قیمتی مٹی کا زنگار نہیں ہے
ایسے میں اب کون ان کو پہچانے ، کون اب ان کے ابد کی حقیقت کو جانے
اک اک کر کے کاٹ گئے ظلموں کے ٹوکے جن کی عمروں کو، اک اک کر کے ، اک اک کر کے
 
فہرست