اور وہ لوگ۔۔۔

مجید امجد


اور وہ لوگ اپنے ناموں کے حرفوں میں اب بھی زندہ ہیں جب وہ نام ہماری زبانوں پر آتے ہیں
ہم۔۔۔ جو اپنی بقا میں موت کا سلسلہ ہیں
ہم سے اچھے ہیں وہ لوگ
پھول ہمارے باغوں میں جن کی قبروں کے لیے کھلتے ہیں
ہم جو گردش کرنے والے کروں کے پاتالوں کی مٹی میں بے تذکرہ ذرے ہیں
ہم ہی تو ہیں وہ جیتی مرتی روحیں، جن کے ہونے اور نہ ہونے کا یہ دائرہ ان ناموں کی
بقا کا دائرہ ہے
جن ناموں کے ذکر کی خاطر ہم بے تذکرہ ہیں
سب کچھ دیکھ کے
سب کچھ جانچ کے
اب بھی لمبی بے انت آنتیں یوں دن رات اس موجِ غرور کو کشید کرنے میں لگی ہیں
جن سے ہماری آنکھیں بھری ہوئی ہیں اور
اب بھی ہم ان ناموں سے بے نسبت ہیں جن کی بقا کی خاطر ہم بے تذکرہ ہیں
 
فہرست