پختہ وصفوں کے بل پر۔۔۔

مجید امجد


پختہ وصفوں کے بل پر، بے حد قربانیوں کے بعد، اک ایسی منزل آتی ہے
جہاں پہنچ کر اس مقصد کی طمانیت ملتی ہے
جس کی بلندی ایک گراوٹ کی جانب بڑھتی ہے
اور اس لمبے سفر میں اک یہ گراوٹ بھی کیسی منزل ہے !
جہاں پہنچ کر انساں اپنے وصفوں سے واصف نہیں رہتا
لیکن دنیا والے اس کے پہلے وصفوں ہی کی بنا پر اس کی گراوٹ سے بے دل نہیں ہوتے
اک یہ کیسی منزل ہے جس تک جب کوئی پہنچتا ہے تو اس کے سوجے ہوئے پپوٹوں کے
نیچے اس کی آنکھوں میں پتلیاں کم حرکت کرتی ہیں
اس کی نظریں اپنی کامیابی پر رکی جمی رہتی ہیں
اور وہ بے نسبت ہو جاتا ہے ، اس دنیا سے بھی جس کو اس کے سفر کی کہانی یاد ہے
کیسا یہ گھن ہے جو سینہ تان کے چلنے والی تقدیسوں کے پنجر میں سب جوہر چاٹ جاتا ہے
اور ہر جانب اونچے مقصدوں کے سنگین لبادے اوڑھ کے کھوکھلی روحیں
اکڑ اکڑ کے چلتی نظر آتی ہیں
کون انہیں پہچانے ، سونے کی تہہ پانی میں ہے اور مٹی کا چہرہ باہر ان سطحوں پر
 
فہرست