سب سینوں میں۔۔۔

مجید امجد


سب سینوں میں یکساں بٹے ہوئے ہیں علم اک دوسرے کے سب احوالوں کے
اور سب سینے خالی ہیں ان دانستوں سے
جن میں یک جانی کی نشو و نما ہوتی ہے
اپنی اپنی اناؤں کے ان بے تسنیم بہشتوں میں سب الگ تھلگ ہیں
ان کے علموں کی ڈالی پر استفہاموں کا میوہ نہیں لگتا
سب نے اپنی دانستوں سے ابھرنے والے سوالوں کی جانب دروازے اپنے دلوں کے مقفل کر کے
چابیاں اب دوزخ کے پچھواڑے میں پھینک بھی دی ہیں
ایسے میں اب کون سنے گا کسی کا شکوہ
اندر تو سینوں میں پہلے سے اتنا غوغا ہے اپنی ہی سانسوں کا
راکھ کے ذروں سے زر ریز ے نتھارنے والے اشک آلود خیالو!
کہو تمہیں کچھ سوجھا، اپنے غبار کی اوٹ میں
ہمیں تو پہلے ہی سے پتا تھا
مرنے سے پہلے لوگ اپنے جاننے والوں کے عملوں میں مرتے ہیں
 
فہرست