برسوں عرصوں میں۔۔۔

مجید امجد


برسوں عرصوں میں اب نیندوں میں جاگے ہیں
خواب، جو جاگتے دنوں کے آنسوؤں میں جیتے تھے
خواب، جو کل بیداری میں بھی اپنے نہیں تھے
جو اب نیندوں میں بھی اپنے نہیں ہیں
صرف یہ آنسو ہمیشہ سے اپنے تھے ، جن میں ان خوابوں کی جوت جلی تھی
کسے خبر کیسی ہیں دوریوں کی یہ دنیائیں جو برسوں عرصوں ہمارے دلوں سے بعید رہتی ہیں
اور اچانک کبھی ہم اپنی زندگیوں کو ان کے چمکتے مدار میں پاتے ہیں پل بھر کو
پل بھر اتنے قریب تک آ کر پھر وہ دوریاں اپنے سدیمی سفر پر ہم سے دور اور دورتر ہو جاتی ہیں
اور ہمارے آنسوؤں میں ان کے عکسوں کی قربتیں بھی دھندلا جاتی ہیں۔۔۔
کیسے ہیں یہ انجمیں قافلے ، جن کا پڑاؤ کبھی برسوں میں پل بھر کو روحوں کے
ساحلوں پر ہوتا ہے
تو وقتوں کے دریاؤں میں روشنیوں کے دودھ بہتے ہیں
اور پھر عمر بھر آنکھیں اپنے آنسوؤں میں ان تسکینوں کو ترستی رہ جاتی ہیں
 
فہرست